Wednesday, May 11, 2022

 

از قلم: اے بی ایم کانجو

صبح نو بجے کا وقت تھا . بچوں کی نظریں مسلسل گھر کے دروازے پر ٹکی ہوئی تھیں.
‏”امی بابا نے کہا تھا وہ میرے لئے کھلونے لائیں گے. امی وہ لائیں گے نا؟” ننھی رمشا نے معصومانہ انداز میں سوال کیا 
‏”ہاں بیٹا وہ لے آئیں گے”
ماں کا جواب سنتے ہی اس کے معصوم چہرے پرمسکراہٹ پھیل گئی . تبھی دوسری طرف بیٹھا علی آہستہ سے بولا:‏
‏” امی میرے نئے کپڑے اور جوتے بھی لائیں گے نا”
“ہاں بابا وہ بھی لے آئیں گے” علی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی مگر ماں کے چہرے پر اب بھی پریشانی کا عالم تھا.اس کی نظریں اب بھی دروازے پر جمی ہوئیں تھیں. تبھی دروازے پر دستک ہوئی علی اور رمشا دروازے کی طرف دوڑے .مگر پھر دونوں مایوس ہی پلٹ آئے” امی دکان والے چاچو ہیں” ماں کے چہرے پر پریشانی کے آثار مزید بڑھ گئے.وہ ڈوپٹہ سنبھالتے ہوئے دروازے کی طرف ہو لی.” جی بھائی . . . ؟ ” . ” بہن ادھار زیادہ ہوا پڑا ہے میں پس پیسے لینے آیا تھا ” “بھائی علی کے ابا آجائیں میں خود پیسے بھجوا دوں گی ” . ” دیکھیں لازمی بھجوا دیجئے گا ہم نے بھی سامان خریدنا ہوتا ہے “. اتنا کہتا شیرو چلا گیا . عائشہ دروازے سے پیچھے ہٹنے ہی لگی تھی کہ ایک بار پھر دروازے پر دستک ہوئی. دروازہ کھلا تو جھکی ہوئی کمر کے ساتھ کندھے پر بیگ اٹھائے ایک شخص گھر میں داخل ہوا.علی اور رمشا بابا بابا کرتے اس سے لپٹ گئے.جمال نے بچوں کو گلا لگا لیا.عائشہ نے سامان کا بیگ اٹھایا اور سب کمرے کی طرف بڑھ گئے.


رمشا اور علی دونوں بابا کی گود میں سونے پر لڑ رہے تھے. کبھی علی رمشا کو ہٹا کر بابا کی گود میں بیٹھ جاتا مگر پھر چھوٹی بہن کو روتا دیکھ کر خود ہی ہٹ جاتا اور رمشا جھٹ سے بابا کے پاس پہنچ جاتی .یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا.
اچانک بچوں کو کچھ خیال آیا وہ دونوں سامان کے بیگ کی طرف دوڑے.
‏ ماں نے ڈانتے ہوئے روکا پر اب تک وہ بیگ کھول چکے تھے .
آخرکار جمال نے خود جا کر بیگ اٹھایا . بیگ کے اندر سے دو مختلف سائز کے جوتے نکال کر علی اور رمشا کو دیئے. پھر ایک ایک سوٹ بھی نکال کر دیا. دونو بچوں کے چہرے چمک اٹھے . ان کی خوشی کی انتہا نا رہی .
جمال نے ایک بار پھر بیگ میں ہاتھ ڈالا اور ایک زنانہ سوٹ نکال کر عائشہ کو دیا.
‏” ارے اس کی کیا ضرورت تھی . پہلے والا سوٹ سہی حالت میں ہے”‏
‏” کوئی بات نہیں ویسے بھی کل عید ہے نیا سوٹ پہن لینا .تمہارے لئے نئے جوتے بھی خرید لاتا مگر سیٹھ صاحب نے آدھی تنخواہ ہی دی تو . . “‏
‏” جی اچھا کیا جوتے نہیں لائے پہلے ۱ جوڑا رکھا ہوا ہے . اور ویسے بھی دوکاندار پیسوں کے لئے کئی چکر لگا چکا ہے . دودھ والے کے بھی دینے ہیں. اور مکان مالک تو گھر خالی کرانے پہ تلا ہوا ہے “‏
‏”ارے ہاں اچھا یاد دلایا ابھی جاؤں گا ان کے پاس “
‏ ¤¤¤¤¤¤¤
‏” سلام شیرو بھائی “
جمال نے شیرو کی دوکان میں داخل ہوتے کہا .
‏” وعلیکم سلام . . . . . ارے آؤ جمالے . . . اب تو پردیس کو ٹھکانہ بنا لیا بھئی بہت کم ہی نظر آتے ہو”
‏” کیا کریں بھئی اپنا کام ہی ایسا ہے کہ کبھی ایک شہر میں تو کبھی دوسرے . . .خیر آپ بتائیں کتنا ادھار ہوا پڑا” 
” بس تین ہزار روپے ہیں” جمال نے جیب سے بٹوا نکالا جس میں پانج ہزار تھے جن میں سے دودھ والے کو بھی دینے تھے اور مکان مالک کو بھی . اس نے دو ہزار نکال کر شیرو کو دیئے. شیرو کے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگا اس نے لہجہ بدلتے ہوئے کہا :‏
‏”جمال صاحب یہ تو دو ہزار ہیں”‏
‏”ہاں پس یار اس بار تنخواہ پوری نہیں ملی. عید کے بعد واپس جاتے ہی بقیہ رقم بھجوا دوں گا”‏
شیروں نے ناپسندیدہ انداز میں جمال کی بات مان تو لی پر اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ خوش نہیں. اس کے بعد دودھ والے کو پانچ سو دینے کے بعد وہ دوکان سے اتر ہی رہا تھا کہ اچانک گلی کی نکر سے ایک آواز ابھری . . .‏
‏” ارے جمالے سنو ذرا . . . ” جمال نے مڑ کر دیکھا مکان مالک تیز قدموں کے ساتھ چلا آ رہا تھا.‏
‏” ارے بھئی . . . ہم بھی تین ماہ سے آپ کے منتظر ہیں . ہم سے بھی ملتے جاؤ “‏
‏” جی نصیر بھائی آپ کے پاس ہی آرہا تھا میں . . .”‏
‏” لو بھئی اب ہم آ گئے ہیں نا اب ہمارا مکان کا کرایہ دے دو “‏
جمال نے جیب سے ہزار ہزار کے دو نوٹ نکالے اور مکان مالک کی طرف بڑھا دیئے .‏
مکان مالک پورا دو ماہ کا کرایہ جو کہ پانچ ہزار تھا دینے پر اصرار کرنے لگا جبکہ جمال کی جیب میں کل ڈھائی ہزار بچے تھے . کافی منت کے باوجود مکان مالک نا مانا ‏” جمال صاحب پیسوں کے معملے میں میں کچھ سخت آدمی ہوں.ایک ماہ صبر کیا اتنا کافی ہے بس آج شام تک میرا سارا قرض اتاڑ دیں ورنہ میں اپنے طریقے سے لوں گا.”مکان مالک چلا گیا جاتے جاتے ڈھائی ہزار بھی لے گیا. جمال خالی جیب لئے گھر کی طرف‎
‎بڑھ گیا.اس کے ذہن میں فقط ایک خیال تھا کل عید ہے اور خالی جیب کے ساتھ عید پر بچوں کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے .‏


اگلی صبح گھر میں بچوں کی اچھل کود سے رونق لگی ہوئی تھی . جمال اور عائشہ چار پائی پر بیٹھے بچوں کو کھیلتا دیکھ رہے تھے 
‏” کاش میں اپنے بچوں کو ہر خوشی دے پاتا ، . . . . مگر افسوس وقت کے تھپیڑوں نے مجھے اتنا مجبور کر دیا کہ عید کے دن بھی میں اپنے بچوں کو پیٹ بھر کھانا نہیں کھلا سکتا “‏
‏” آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے اللہ پاک پر یقین رکھیں پیٹ بھر کھانا دینے کا وعدہ اللہ نے اپنے بندے سے کیا ہے اور وہ وعدہ پورا کرنے والی ذات ہے . رہی بات غربت اور مشکلات کی تو شکر غربت کا بہترین حل ہے . اللہ سب بہتر کرے گا آپ نا امید نا ہوں “
‏” عائشہ میں سوچ رہا ہوں کہ اس بار تم سب کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤں . سب مل کر رہیں گے جہاں بھی رہیں گے .”
‏” جی آپ نے سہی کہا مگر . . . . . . ” عائشہ کی بات ادھوری رہ گئی اور دروازے پر دستک سے جمال کی توجہ اس طرف ہو گئی .
اس نے جا کر دروازہ کھولا تو باہر کافی غیر متوقع منظر تھا . مکان مالک پولیس کے چند اہلکاروں کے ہمراہ دروازے پر کھڑا تھا . 
‏” کیوں بھئی آپ نصیر صاحب کے پیسے کیوں نہیں دے رہے . کرایہ بھی نہیں دیتے اور مکان پہ بھی قبضہ کر رکھا ہے ” 
تھانیدار جمال کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے مخاطب ہوا .
جمال نے حیرت بھری نظر سے نصیر کو دیکھا . پھر جواب دیتے ہوئے کہا .
‏” نہیں ایسی بات نہیں ہے . میں نے تو پس چند دن کی مہلت مانگی ہے”
‏” جناب یہ ہر بار ایسا بولتا ہے پھر کسی انجان شہر نکل جاتا ہے . میں تو کہتا ہوں آپ اس کو تھانے لے چلیں وہاں یہ پیسے دے گا ” 
نصیر نے جمال کی بات ختم ہونے سے پہلے درمیان میں بول دیا .
‏”جمال صاحب آپ ابھی ان کا کرایہ ادا کردیں یا مکان خالی کر دیں ورنہ مجبورا آپ کو مجھے تھانے لے جانا پڑے گا . . “
‏” یہ کیا کہہ رہے جناب عید کے دن میں کہاں جاؤں گا بچوں کو لے کر تھوڑا وقت تو دیں “
‏” ارے تھانیدار صاحب آپ پس ان کو گرفتار کریں یہ نہیں ماننے والا ” نصیر نے ایک بار پھر تھانیدار کو اکسانے کی کوشش کی اور اس بار وہ کامیاب رہا . تھانیدار نے ایک حوالدار کو گرفتاری کا اشارہ دیا . حوالدار آگے بڑھا اس نے جمال کو بازو سے پکڑا 
‏” تھانیدار صاحب آپ یہ کیا کر رہے ہیں ہمیں تھوڑا سا وقت تو دیں میں پیسے ادا کر دوں گا . . . . . “
جمال کی ایک نا سنی گئی اور وہ اس کو لے کر وین کی طرف بڑھے ہی تھے کہ اتنے میں گھر کا دروازہ کھلا علی اور رمشا دوڑتے ہوئے باہر آئے ان کے ہاتھوں میں بابا کے لائے ہوئے نئے جوتے اور کپڑے تھے .
‏” پولیس والے انکل . . . پولیس والے انکل . . . ہمارے بابا کو چھوڑ دیں .پیسوں کے بدلے آپ ہماری نئے کپڑے اور جوتے لیں . سچی ہم نے ابھی تک نہیں پہنے بالکل نئے ہیں . آپ ہمارے بابا کو نا لے جائیں “
ایک لمحے کے لئے ماحول ساکت سا ہو گیا . حوالدار کے ہاتھ سے بے اختیار جمال کا ہاتھ چھوٹ گیا . جمال کی آنکھیں بھر آئیں اس نے جلدی سے بچوں کو گلے لگا لیا . عید کے دن معصوم بچوں کی خواہشات غربت کی چکی میں پس چکی تھیں . مگر افسوس کہ بے درد زمانے کی ہتھکڑی اب بھی ایک مجبور باب کو لگی ہوئی تھی جیسے دولت کی حوس نے انسان کو انسانیت سے دور کر دیا ہو۔

No comments:

Post a Comment